KARACHI: Some people remain alive and immortal, even after death, in the pages of history.
Mohtarma Benazir Bhutto Shaheed was also one of them.
The daughter of Quaid-e-Awam Shaheed Zulfikar Ali Bhutto, entered practical politics at the age of twenty-four.
Like her father, she was known for principled politics.
Sorrows overshadowed contentment in Benazir Bhutto’s political life.
Despite execution of father and murder of brothers, she continued her struggle for democracy and wellbeing of the masses.
That’s why the people of Pakistan always supported their beloved leader and never left her alone.
Be it the darkest period of Zia-ul-Haq or Musharraf’s dictatorship.
It was the people of Pakistan’s trust in Benazir Bhutto that she became the first woman Prime Minister of the Muslim world.
Her opponents conspired and toppled her government in 1990.
But the people expressed complete confidence in Benazir Bhutto’s leadership by electing her the Prime Minister once again in 1993.
During Musharraf’s martial law she spent eight years in exile.
When she returned home in 2007, a mammoth crowd was present outside the Karachi airport to catch a glimpse of their leader.
That historic welcome was covered not only by the Pakistani but also the international Media.
When Benazir Bhutto emerged from the aircraft she was overwhelmed by emotions.
Raising her hands she thanked Allah as tears flowed from her eyes.
When Benazir Bhutto decided to return to Pakistan, she knew that death was stalking her.
But the daughter of Shaheed Zulfikar Ali Bhutto was never afraid.
When her convoy reached Karsaz, an attempt was made to assassinate her via bomb blasts.
She luckily survived the attack, but 170 people died and more than 600 got injured.
After the Karsaz incident, Benazir Bhutto’s life was in greater danger than before.
Therefore, she was asked not to go to public meetings.
But, without caring for her life, she continued the struggle for the rights of Pakistan’s people.
On 27th of December, 2007 she addressed a rally at Rawalpindi’s Liaquat Bagh.
It was the same place where the 1st PM of Pakistan, Liaquat Ali Khan, was martyred while addressing a similar public meeting.
Anti-Pakistan forces once again repeated the history.
The first and twice elected Prime Minister of Pakistan, Benazir Bhutto, was martyred at the same spot.
All hell broke loose when people learnt about her martyrdom.
The tragedy was grieved by people in tears from Karachi to Khyber.

کُچھ لوگ مر کے بھی تاریخ کے اوراق میں زندہ و جاوید رہتے ہیں۔
محترمہ بینظیر بھٹو شہید کی شخصیت بھی اُنہی لوگوں میں شامل ہے۔
قائدِعوام شہید ذوالفقار علی بھٹو کی بیٹی محترمہ بینظیر بھٹو نے چوبیس سال کی عمر میں عملی سیاست میں قدم رکھا۔
آپ نے اپنے والد کی طرح ہمیشہ اصولوں کی سیاست کی جو کہ آپکی وجہ شہرت بنی۔
بینظیر بھٹو کی سیاسی زندگی میں دُکھ ذیادہ اور سُکھ کم تھا۔
آپ نے اپنے والد کی پھانسی ۔۔۔۔۔۔اور بھائیوں کی شہادت جیسے دردناک اور کٹھن مراحل پر بھی عوام کی فلاح و بہبود اوعر اِس ملک کی جمہوریت کیلئے جدوجہد جاری رکھی۔
یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی عوام نے بھی اپنی ہردلعزیز لیڈر کا ہر موقع پرساتھ دیا اور کبھی بھی شہید رانی کو تنہا نہیں چھوڑا۔
خواہ وہ ضیاالحق کا سیاہ ترین دور ہو یا مشرف کی آمریت۔
یہ پاکستان کی عوام کا بینظیر بھٹو پر اعتماد ہی تھا کہ وہ مسلم دُنیا کی پہلی خاتون وزیرِاعظم کے منصب پر فائز ہوئیں۔
مخالفین نے سازش کر کے ۱۹۹۰ میں آپکی حکومت گرائی، لیکن عوام نے اُس فیصلے کو مسترد کیا۔
یہی وجہ ہے کہ ۱۹۹۳ میں ایک بار پھر عوام نے آپکو وزیرِاعظم منتخب کر کے آپکی قیادت پر بھرپور اعتماد کا اظہار کیا۔
۱۹۹۸میں مشرف کے مارشل لا کے دوران آپ نے آٹھ سال کی جلا وطنی کاٹی۔
۲۰۰۷ میں طویل عرصے کے بعد جب آپ واپس وطن پہنچیں تو کراچی ائیرپورٹ کے باہر لوگوں کا ایک ٹھاٹھیں مارتا سمندراپنی لیڈر کی ایک جھلک دیکھنے کیلئے موجود تھا۔
اِس تاریخ ساز استقبال کی نہ صرف پاکستانی بلکہ عالمی میڈیا نے بھی بھرپور کوریج کی۔
بینظیر بھٹو بھی جب اپنے طیارے سے باہر آئیں تو لوگوں کی اِس بے پناہ محبّت پر اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکیں اور بیساختہ اُن کی آنکھوں سے آنسُو جاری ہو گئے۔ اُنہوں نے دونوں ہاتھ اُٹھا کر اللہ کا شکر ادا کیا۔
بینظیر بھٹّونے جب ملک واپسی کا فیصلہ کیا تو اُنہیں معلوم تھا کہ موت اُنکے تعقب میں ہے۔ لیکن شہید ذوالفقار علی بھٹّو کی بیٹی موت سے کب گھبرانے والی تھیں۔
آپکا قافلہ جب کارساز کے مقام پر پہنچا تو یکے بعد دیگرے دو بم دھماکے ہوئے جس کا نشانہ محترمہ تھیں۔
آپ خوش قسمتی سے اِس سانحہ میں محفوظ رہیں، لیکن اِس افسوسناک واقعے میں ایک سو ستتر افراد جاں بحق جبکہ چھ سو سے زائد زخمی ہوئے۔
سانحہ کارساز کے بعد بینظیر بھٹّو کو جان کا خطرہ پہلے سے کہیں ذیادہ بڑھ گیا تھا۔
جِس کے پیشِ نظر اُنہیں عوامی جلسوں میں شرکت سے منع کیا گیا۔
ڈاکٹرز نے بھی آپکی طبیعت ناساز ہونے کے باعث مکمل آرام کا مشورہ دیا۔
لیکن آپ نے اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر اِس ملک کی عوام کو اُنکے حقوق دلانے کا عزم لئے جدوجہد جاری رکھی۔
ستائیس دسمبر کو راولپنڈی کے لیاقت باغ میں جلسے سے خطاب کیا۔
یہ وہی مقام تھا جہان پاکستان کے پہلے وزیرِاعظم لیاقت علی خان کو اِسہی طرز کے عوامی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے شہید کیا گیا۔
ملک دشمن قوتوں نے ایک بار پھر تاریخ کو دُھرایا اور اُسہی جگہ مسلم دُنیا کی پہلی اور پاکستان کی دو مرتبہ منتخب وزیرِاعظم بینظیر بھٹّو کو شہید کر دیا گیا۔
بی بی شہید کی شہادت کی خبر ملتے ہی ملک میں قیامتِ صغرٰی برپا ہو گئی۔
کراچی سے خیبر تک پُورا ملک سوگ میں ڈوب گیا، ہر آنکھ اپنی اِس عظیم لیڈر کی شہادت پر اشکبار تھی۔
Newspakistan.tv